اے رہبر امت ، اے پاسبان حرم
مرا کیا ہے دیں ، مرا کیا ہے دھرم
مرا کیا ہے دیں ، مرا کیا ہے دھرم
میں تو بت پرست تھا آبا و اجداد سے
جاں کی اماں مانگتا تھا نمرود و شداد سے
جاں کی اماں مانگتا تھا نمرود و شداد سے
مدینے کی گلیوں سے آیا اک پیغام
نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا ، ہے سب حرام
نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا ، ہے سب حرام
مرے من میں ہوا ، برپا ایسا انقلاب آفریں
کوئی بت رہا ، نہ سجدہ ، نہ وہ جبیں
کوئی بت رہا ، نہ سجدہ ، نہ وہ جبیں
دیکھ رہا ہوں پھر لات و منات پڑے اندر حرم
اسماعیل و ابراہیم نہ محمد ، نہ وہ نظر کرم
اسماعیل و ابراہیم نہ محمد ، نہ وہ نظر کرم
خود کو کہتے ہوئے مسلماں ، آتی ہے اب تو شرم
کہ تاج بےکسی و بے حسی کا ٹوٹ جائے نہ بھرم
کہ تاج بےکسی و بے حسی کا ٹوٹ جائے نہ بھرم
اے رہبر امت ، اے پاسبان حرم
مرا کیا ہے ریں ، مرا کیا ہے دھرم
مرا کیا ہے ریں ، مرا کیا ہے دھرم
No comments:
Post a Comment